ہر جادۂ حیات پہ تنہا گیا ہوں میں
پہنچا جہاں نہیں، وہاں پایا گیا ہوں میں
دے کر مرے خیال کو رختِ ہمیشگی
پھر موت کی طناب سے باندھا گیا ہوں میں
رسوا کیا گیا ہے یوں پتھر کا جان کر
توڑا نہیں گیا ہوں نہ پوچا گیا ہوں میں
جنگل کی کروٹوں سے مرا ہے یہی سوال
کس جاں خود اپنے آپ کو دفنا گیا ہوں میں؟
منظر کشی کے واسطے بھیجا گیا مجھے
خود کو بسا کے آنکھ میں ہی آ گیا ہوں میں
عقل و خرد کی جاگ لگانے سے برسوں قبل
نسبہ کی ڈوریوں سے تراشا گیا ہوں میں
منزل اٹھائے سر پہ تلاطُم کے بیچ و بیچ
بن کر سفینہ نوح کا پیاسا گیا ہوں میں
یوں بار بار صاف نہ کیجے اسے حضور
آلودہ آئنہ نہیں، دھندلا گیا ہوں میں
