زمیں ادھوری ہے یہ آسماں ادھورا ہے
ترے بغیر مرا ہر جہاں ادھورا ہے
بنا یقین کے تُو چل رہا ہے سب کو لئے
او بد نصیب ترا کارواں ادھورا ہے
نہیں ہے وہ تو مکانات سب ادھورے ہیں
اگر وہ ہے کہیں تو لا مکاں ادھورا ہے
ادھورے پن کو وہ اپنے سمجھ سکا نہ کبھی
جو بَک رہا ہے فلاں بن فلاں ادھورا ہے
مرے ادھورے عقیدے پہ بد گمان ہے تُو
مرا تو ہر مُتذبذب گماں ادھورا ہے
مرے خلاف اندھیرا کھڑا کیا تُو نے
ترے گواہ کا ہر اک بیاں ادھورا ہے
بہار آ گئی منصؔور، وہ نہیں آئے
گلوں کے ہوتے ہوئے گلستاں ادھورا ہے
