شہر الریاض کے معروف ماہر تعلیم اور ہمارے عزیز دوست پروفیسر عظمت اللہ بھٹہ صاحب نے اپنے دولت کدے پر ایک علمی اور ادبی محفل کا اہتمام کیا
یہ ادبی حادثہ گزشتہ جمعے کو اچانک پیش آیا اور میں نے آشوب چشم کی شدید تکلیف کی وجہ سے ان سے معذرت کرنے کی کوشش کی اور رخصت چاہی جو نہ مل سکی تو میں نے سوال کیا کہ آنکھوں کی تکلیف کی وجہ سے میں اس محفل میں کیسے شامل ہو سکتا ہوں ، لیکن جواب دینے کی بجائے اس سوال کی پاداش میں مجھے گھر سے اٹھوا لیا گیا، چشم نمناک لئے جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا تخیل ادبی فورم کے آدھے سے زیادہ کشتگان خاک دھرنا دئے بیٹھے تھے اورباقی افتادگان حال تاحال مفرورتھے اور انہیں دیکھ کر آنکھوں سے آنسو اور شدت سے بہنے لگے ، تکلیف سے میری آنکھوں میں ویسی ہی شدید جلن تھی جیسی ہمارے دوست خالد رانا صاحب کو عمران خان کا نام سن کر ہوتی ہے، بھٹہ صاحب کے آنگن میں ایستادہ سرخ اینٹوں سے بنی باربی کیو کی انگیٹھی لندن کے پارک لین پر واقع مے فئیر عمارت کا سا منظر پیش کر رہی تھی اور اس میں سے نکلتا ہوا ’’دھواں‘‘ مجھے اپنی کالی عینک کے پیچھے سے بھی واضح نظر آ رہا تھا،
شاعر حضرات آنگن میں بچھی صوفہ نما کرسیوں پر براجمان ہوئے اور بھٹہ صاحب خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے ویسے بھی جسامت کے لحاظ سے وہ عام جگہ پر نہیں سماتے یہ تو پھر ان کا اپنا دولت کدہ تھا ، دیواروں پر سبزہ اور چہروں پر رونق خراب آنکھوں سے بھی مجھے نظر آ رہی تھی، ایک کونے میں رکھے پنجرے میں بند رنگ برنگے پرندے اتنے شاعروں کو ایک ساتھ دیکھ کر احتجاج پر اتر آئے اور مسلسل شور برپا کئے ہوئے تھے اور ان کی صداؤں سے مجھے یہ مصرع سمجھ آیا کہ
’’غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں‘‘
ادھر شاعر اپنا کلام سناتے جا رہے تھے ادھر واہ واہ کی صداؤں میں پرندوں کی آوازیں شامل ہو کر لطف دوبالا کر رہی تھیں شعری محفل کے بعد میں نے اپنا مضمون پیش کیا تو کہیں جا کر پرندوں کو قرار آیا اور یوں حق باطل پر واضح ہوا۔ آنگن میں سفید اور سیاہ قسم کے چھوٹے چھوٹے پرندے بھی ٹہل رہے تھے، میری اس ضمن میں معلومات کم ہیں تو بھٹہ صاحب سے پوچھ لیا کہ یہ اتنی خوبصورت مخلوق کونسی ہے تو انہوں نے فرمایا کہ ان میں ’’آدھے تیتر اور آدھے بٹیر ہیں‘‘ یہ جان کر عجیب سی خوشی ہوئی اور بھٹہ صاحب کی شخصیت مزید نکھر سامنے آئی، پھر اگلا سوال داغا کہ حضرت یہ آزاد گھوم رہے ہیں تو اڑتے کیوں نہیں، بھٹہ صاحب نے فرمایا کہ ان کے پر کاٹے ہوئے ہیں، تو ہم نے جانا کہ بھٹہ صاحب پر کاٹنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
کھانا تیار ہونے میں ابھی کچھ وقت درکار تھا اور اس دوران ادبی گفتگو اور غزل کی محفل چلتی رہی ، کسی نے فارسی ادب کا ذکر چھیڑا تو تان تاجک گلوکارہ خلوہ نگورہ پر ٹوٹی ، مجھ سمیت صابر اور منظر ہمدانی ’’خلوہ نگورہ‘‘ کی زلف کے اسیر پائے گئے ، میں نے خوب تعریف کی کہ نگورہ بہت اچھا گاتی ہے کسی نے کہا کہ منظر بھائی کا ترنم بھی بہت خوب ہے تو عرض کیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے سامنے نگورہ گائے کوئی نگوڑہ نہیں۔
دوران گفتگو ہمیں اپنے عزیز دوست محسن سمر کی یاد ستانے لگی جو دشت عرب سے ہجرت کر کے پرتگال جا بسے ہیں ، ان کے ذکر پر عجب اداسی نے آن گھیرا تو میں نے عرض کیا کہ حضرات پرتگال انتقال ہم وزن سہی لیکن اتنا اداس ہونے کی بھی ضرورت نہیں کہ یہ ہجرت برضا ہے، اس اثنا میں شاہد خیالوی نے فوراَ محسن کی محبت میں لکھی ایک نظم سنائی اس نظم میں محسن کے لئے تحسین اور محبت کے جو الفاظ تھے اس پر ہمیں شک ہوا کہ ہو نہ ہو محسن نے شاہد خیالوی کو ویزے کا جھانسا دے رکھا ہے۔
حسب معمول باربی کیو کی انگیٹھی پر بھٹہ صاحب کے فرزندان ارجمند مرغیوں کے ’’پاسے سیک‘‘ رہے تھے اور شاویز بھٹہ کیمرہ ہاتھ میں لئے سرکاری صحافی کی مانند مسلسل تصویر کشی میں مشغول نظر آئے، فیصل اکرم گیلانی کھانے کی میز کے قریب فروکش تھے اور شاہد خیالوی کسی انجانے خوف سے بار بار مرغیوں کے پیس گنتے کہ کہیں مال ادھر ادھر تو نہیں ہو رہا، اسی اثنا میں فیصل نے اپنی کرسی میز کے مزید قریب کرنے کی کوشش کی تو شاہد نے فورا کھانے کے سامان کو سفید چادر سے ڈھانپ کر اس پر چار اینٹیں حفاظت کے طور پر رکھ دیں اور مزید حفاظت کی غرض سے ایک اینٹ ہاتھ میں لئے عین فیصل کے سامنے بیٹھ گئے، سلیم کاوش صاحب بار بار ارباب اقتدار کو کوستے اور کھا جانے والی نظروں سے باربی کیو کو دیکھتے رہے، صابر امانی نے ایک ہاتھ سے موبائل تھام رکھا تھا اور دوسرے ہاتھ سے میاں شہباز صادق کو قابو کیا ہوا تا کہ کوئی ناگہانی صورت پیدا نہ ہو یہ خوف شاید اس لئے تھا کہ میاں شہباز صادق نے بڑی بڑی جیبوں والی قمیص زیب تن کر رکھی تھی اور ایک جیب سے پلاسٹک کا شاپر شرارتی بچے کی طرح جھانک رہا تھا۔
دہکتے کوئلوں پر مرغیوں اور کرسی پر منظر ہمدانی کی حالت ایسے تھی کہ ’’ جل اٹھتا ہے جو یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں‘‘ منظر ہمدانی بار بار اس منظر کو غور سے دیکھتے اور پھر اپنی انگلیوں پر کوئی حساب کرنا شروع کر دیتے جب بات ان کی حد برادشت سے گزر چکی تو خاموشی سے اٹھے اور سویٹ ڈش کے ڈونگوں، پلیٹوں اور چمچوں کو اپنی تحویل میں لے لیا، صاحب خانہ اور میز بان محفل جناب بھٹہ صاحب بھی مہمانوں کی خدمت میں پیش پیش اور جب بھی اٹھ کر کہیں جاتے تو پہلے منصور محبوب کو دیکھتے اور پھر اپنی کرسی بھی ساتھ ہی اٹھا کر لے جاتے، پلیٹوں کو سنبھالنے کی تگ و دو میں ان کے ہاتھ سے چمچہ نیچے گر گیا تو ہلکی سی خجالت کے آثار چہرے پر نظر آئے تو میں نے عرض کیا بھٹہ صاحب احتیاط کیا کریں چمچے انسان کو ہمیشہ شرمندہ کراتے ہیں۔
مہمان اعزاز پروفیسر میاں اقبال صاحب جو کیمسٹری کے استاد رہے ہیں اور انہیں ادبی محفل کا پہلے کوئی تجربہ نہیں تھا سارا وقت شعرا کی غزل گردی کا شکار رہے اور مسلسل غزلیات سے ان کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا اور ہر نئی غزل کا اعلان سن کر ان کی حالت چھوئی موئی جیسی ہو جاتی اور اپنی نشست پر مزید سکڑ جاتے اور زبردستی مسکرانے کی کوشش کرتے بھی پائے گئے۔
اردو نیوز سعودی عرب اور نوائے وقت پاکستان کے سینئر صحافی طاہر اعجاز اعوان صاحب کی حالت بھی مختلف نہیں تھی وہ شعرا اکرام کو دیکھتے پھر صاحب خانہ کو دیکھ کر کوئی ورد پڑھتے اور چہرے پر سوال سا نظر آتا کہ بھٹہ صاحب آپ سے یہ امید تو نہیں تھی۔
تناول ماحضر کے موقع پر منصور نے کولڈ ڈرنکس کے بوتلوں کو دیکھا ، بوتل اٹھائی اور یہ کہتے ہوئے واپس رکھ دی ، ’’اچھا صرف کولڈ ڈرنک ہے‘‘ تو میں نے عرض کیا کہ بھٹہ صاحب اسلامیات کے پروفیسر ہیں ان کے ہاں سادہ کولڈ ڈرنگ بھی میسر ہو تو غنیمت ہے شکر کریں کہ یہود کی ایجاد کہہ کر اسے راندہ درگاہ نہیں کیا۔
محفل کے دوران مسلسل تصویر کشی جاری رہی لیکن سٹیل کا گلاس موجود نہ ہونے کی وجہ سے منصور محبوب سخت نالاں رہے۔
